چین میں گزشتہ برس موبائل ایپلی کیشن کی مدد سے لاپتہ ہونے والے سیکڑوں بچوں کو بازیاب کرایا گیا۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'شنہوا' کی رپورٹ کے مطابق چینی وزارت برائے عوامی تحفظ نے گزشتہ برس موبائل ایپ کی مدد سے 611 گمشدہ بچوں کو بازیاب کرایا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق اس موبائل ایپلی کیشن کا مقامی نام 'توان یان' ہے جسے انگریزی میں 'ری یونین' کہتے ہیں اور اسے ٹیکنالوجی کمپنی علی بابا نے تیار کیا ہے اور اسے گزشتہ برس مئی میں لانچ کیا گیا تھا۔
اس موبائل ایپلی کیشن کی مدد سے پولیس اہلکار گمشدہ بچے کی معلومات ایک دوسرے سے شیئر کرسکتے ہیں اور مل کر سرچ آپریشن جاری رکھ سکتے ہیں۔
جس مقام سے بچہ لاپتہ ہوتا ہے اس علاقے کے ان لوگوں کے پاس ایک نوٹیفکیشن جاتا ہے جو یہ ایپ استعمال کرتے ہیں، اس نوٹیفکیشن میں بچے کا نام اور تصویر بھی ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 'چین کی مہنگی دلہنیں اور پریشان لڑکے'
یہ نوٹیفکیشن ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل ہوتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک بچہ مل نہیں جاتا۔
اس ایپلی کیشن کا جدید ورژن گزشتہ برس نومبر میں جاری کیا گیا تھا جس میں اس کی رسائی علی بابا کے دیگر موبائل ایپس تک بھی کردی گئی تھی جس کے بعد نوٹیفکیشن علی بابا کے آن لائن شاپنگ ویب سائٹ تاؤ باؤ ، سرچ انجن بائیدو، میسیجنگ سافٹ ویئر کیو کیو اور موبائل رائیڈ شیئرنگ پلیٹ فارم دی دی چوشنگ میں بھی نظر آنے لگا۔
واضح رہے کہ چین میں بچوں کی اسمگلنگ عام ہے جہاں آبادی کو قابو میں رکھنے کے لیے سخت پالیسیاں نافذ ہیں۔
پابندیوں کی وجہ سے چین میں مردوں و عورتوں کے تناسب میں بھی فرق پیدا ہوا ہے کیوں کہ لڑکے کو ماں باپ کا سہارا اور وارث سمجھا جاتا ہے جبکہ لڑکی کو پیدائش سے قبل یا بعد میں قتل کرنے یا پھینک دیے جانے کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔
اس عدم توازن کی وجہ سے اغواء کیے ہوئے لڑکوں کو مجرمانہ سرگرمیوں میں استعمال کے لیے خریدا جاتا ہے جبکہ لڑکیوں کو اس لیے خریدا جاتا ہے کہ مستقبل میں جب ان کی شادی کی جائے گی تو لڑکے سے بھاری رقم کا مطالبہ کیا جائے گا۔
چین میں لڑکیوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے شادی کے لیے لڑکیوں کی مانگ میں اضافہ ہوگیا ہے اور اس صورتحال نے چین کے کنوارے نوجوانوں کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے جنہیں اپنی جیون ساتھی کے حصول کے لیے لاکھوں ین خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
0 comments: